Add To collaction

تمہیں میں جان نہیں پایا

سنو نا !

بڑی دیر سے اس کو جاننے کی ایک ناکام کوشش کرتا رہا ہوں
              کہ کچھ جان جاؤں 
مگر ہار گیا !
اس کی ہر نئی نظم میں اس کا ایک الگ ہی پہلو ہوتا ہے
کہیں خود ہی کو  رکھ کر خود ہی کو کوستی رہتی ہے اور ہر کام کا ذمدار خود ہی کو ٹھہراتی ہے 
اور کہیں مجھے رکھ لیتی ہے یا کسی اور کو !
وہ کیا ہے ؟ اتنی خاموش !
مگر بہت بولتی ہے بہت ! اپنی نظموں میں 
ہر کسی کو اپنے سوال کا جواب اسکی لکھی نظموں میں مل جاتا ہے 
نور کی روشنائی سے لکھی لوح محفوظ پہ رقم عبارت سی ہے وہ ۔
میں خود سے اگر ملا ہوں تو اس کی وجہ سے 
نہیں تو میرا وجود میر ؔؔ کی غزل سا تھا پسند تو سب کرتے تھے مگر یاد کوئی نہیں کرتا تھا !
میرے خوابِ زنداں کو روشنی بخشی والی 
کب جان پاؤں گا تمہیں ؟۔                  
کبھی کبھی آتی ہو اور صرف وہ بات کہنے جو میں پہلے سے جانتا ہوں اور ازیت دیتی ہے یہ کہ تم کس ازیت سے گزر رہی ہو 
کیا دیکھ رہی ہو کیوں دیکھ رہی ہو اور کہاں ؟
میں جاننا چاہتا ہوں تمہیں غور کرنا ہے تم پر 
ہو سکتا ہے تجھے جاننا مجھے میرے جاننے کا وسیلہ بنے  ۔
کیوں جاننا چاہتا ہوں تمہیں ! کیا وجہ ہے ؟
وجہ یہ ہے کہ مجھے تم سے محبت ! ارے نہیں عقیدت ہے اور جہاں عقیدت ہے وہاں محبت بھی تو ہوتی ہے نا !
تم وہ ہو جو میں نہیں ہوں !
اور میں وہ ہوں جو تم نہیں ہو 
مجھے تم ہونا ہے میرا ہاتھ تھام لو !
اس سے پہلے کہ میں میں نہ رہوں ! 

سنو نا !

تمہیں سمجھنے لگا تھا مگر مرا ہونا 
دکھائی مجھ کو دیا ہے بہت برا ہونا 

میں خود سے ترک تعلق یوں کرنے والا ہوں
بڑا کٹھن ہے میرا خود سے آشنا ہونا

بتاؤ مجھ کو تجھے تنگ کیوں نہیں کرتا 
ہمیشہ اپنی ازیت میں مبتلا رہنا 

تمہاری جستجو کرتے ہوئے کہاں پہنچا 
ہوا کبھی نہ میسر مجھے ترا ہونا 

میں کب تلک یوں رفاقت پہ انحصار کروں 
خدا یا راس ہی آ جائے اب جدا ہونا

میں ایسے شخص سے وابستہ ہو گیا ہوں غدیر
جسے پسند نہیں ہے یہاں مرا ہونا 

غدیر غازل ؔ۔

   3
1 Comments

Dr. SAGHEER AHMAD SIDDIQUI

19-Oct-2021 11:02 AM

Nice

Reply